بچے عموماً بہت ذہین ہوتے ہیں اور ان کی ذہانت کو درست سمت میںمرکوز کرکے مفیدا ور صحت مند نتائج اور فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں مثلاً گھر میں بچوں کو اپنی اوردوسرے لوگوں کی حفاظت یا ضرورت پڑنے پر فوری طبی امداد‘ معالج کی طبی یا کوئی اور ہنگامی مدد وغیرہ بچوں کی ذہانت کو مرتب اور منظم کرنا بڑوں اور خاص طور پر والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ درس گاہیں بھی اہم ترین رول ادا کرسکتی ہیں۔
شہری ماحول میں رہنے والے لوگوں کوگھروں میں کئی طرح کے خطرات درپیش رہتے ہیں مثلاً آگ لگنا‘ بجلی کا جھٹکا‘ کوئی ایسی صورت حال جہاں فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے یا کوئی عام سا حادثہ ‘ ایسی صورت حال میں غیر تربیت یافتہ یا کم ذہین بچے رونے چیخنے اور بھاگنے دوڑنے لگتے ہیں جس سے مزید نقصانات کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ تربیت یافتہ افراد‘ منظم لوگ اور باصلاحیت بچے خود اپنی اور دوسروں کی حفاظت کا باعث ہوتے ہیں‘ بچوں کو معمولی سی تربیت اور ہدایت دے کر اس لائق بنایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی کی اچانک علالت مثلاً دورۂ قلب یا حادثے مثلاً آتشزدگی‘ بجلی کا جھٹکا لگنے سے کسی کی بے ہوشی‘ گیس‘ ہیٹر یا چولہے سے کسی کے جل جانے یا کسی اور طرح اچانک زخمی ہونے کی صورت میں اس شخص کو فوری حفاظت اور مدد کرکے اسے موت کے منہ میں جانے سے بچا سکتے ہیں یا معمولی مریض یا زخمی کو زیادہ خطرناک صورت حال کی جانب جانے سے روک سکتے ہیں۔ عموماً ایسے لمحات سے مراد وہ صورت حال ہے جب گھر میں متاثرہ شخص اور ایک بچے یا کئی بچوں کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ ان لمحات میں ذرا سی بھی مدد نہایت کارآمد اور متاثرہ شخص کی جان بچانے کا باعث ہوسکتی ہے جبکہ معمولی سی تاخیر سے صورت حال خطرناک حد تک سنگین ہوجاتی ہے۔
پہلے تو بچوں کو جن کی عمریں نوسال سے اوپر اور بارہ سال کے درمیان ہوں‘ گھر میں پیش آسکنے والے ممکنہ خطرات کی اقسام سمجھائی جانی چاہئیں مثلاً کسی شخص کے شدید چوٹ لگ جانا (سر یا چھاتی پر) جس سے غشی ہوجائے یا خون بہنے لگے‘ کسی کا زینے یا بالکونی سے گرپڑنا‘ جل جانا یا آگ سے یا بجلی کے کسی سامان مثلاً چولہے یا استری وغیرہ سے ہو‘ بجلی کا جھٹکا لگنا‘ کسی کی اچانک بیماری مثلاً دورۂ قلب وغیرہ۔
ماہرین کا خیال ہے شہروں میںہرآٹھ سیکنڈ میں گھریلو حادثات وغیرہ کی وجہ سے ایک شخص کے زخمی ہونے اور ہر اکیس منٹ میں ایک کے ہلاک ہونے کی شرح ہے۔ اس کے علاوہ گھروںمیں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کو دل کا دورہ پڑجائے اگر زخمی یا بیمار شخص ہوش میں ہو اور گھر میں اس کے ساتھ صرف ایک بچہ ہو تو گھبرانے کی بات نہیں اس شخص کو چاہیے کہ وہ بچے کو ہدایت کرے کہ اسے فوراً کیا کرنا چاہیے۔ عموماً ایسی صورت میں سب سے جلد اور مؤثر تدبیر کسی قریب ترین پڑوسی کی مدد طلب کی جاسکتی ہے۔
بچوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ کسی حادثے وغیرہ کی صورت میں سراسیمگی اور گھبراہٹ میں رونا پیٹنا بہت مضر ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر بچوں کو سب سے پہلے خوف پر قابو پانے کی تربیت ملنی لازمی ہے۔ ان کوخود کو خطرے سے بچانا بھی آنا چاہیے۔ اس طرح بچے اپنی ماں کے ساتھ مل کر یاخود متاثرہ شخص کی مدد کیلئے اپنے کسی رشتے دار کو‘ جو جائے وقوع سے قریب رہتا ہو خود جاکر‘ کسی دوست یا پڑوسی کی مدد سے ‘ٹیلی فون یا موبائل کے ذریعہ سے اطلاع دے سکتے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے موبائل اور ٹیلی فون کے پاس ہی اہم اور فوری ضرورت میں کام آنے والے ٹیلی فون نمبر لکھ کر رکھنے چاہئیں جو پہلی نظر میں مل جائیں مثلاً قریب ترین پولیس اسٹیشن‘ معالج‘ رشتے دار‘ فائر بریگیڈ‘ ریسکیو مرکز اور دوستوں کے فون نمبرز وغیرہ۔ بچوں کو اہم اور خطرناک حالات میں ان نمبروں پر فون کرکے یا دوسرے الفاظ میں فون کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی تربیت دینی ضروری ہے۔
بچوں کو ہنگامی حالات میں مدد کرنے اور مدد طلب کرنے کی تربیت دینے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ آزمانا چاہیے۔ ان کو کسی ہنگامی کیفیت کا مصنو عی تاثر دے کر ان کا ردعمل وغیرہ نوٹ کرنا چاہیے اور پھر بہتر طرزعمل کی مختصر سی مشق کرانی چاہیے۔ بچوں کوایسے حالات کیلئے یہ سکھانا ضروری ہے کہ وہ اپنا نام‘ پتہ یعنی گھر کا نمبر اور گلی وغیرہ بھی بتاسکیں۔ نیز وہ یہ بھی بتاسکیں کہ انہیں کس صورتحال کا سامنا ہے اور ان کی پکار کی نوعیت فوری ہے۔ اگر وہ ٹیلی فون ملا کر اپنا نام‘ پتہ‘ گلی محلہ اور مکان کا نمبر نیز مسئلے کی شدت نہ بتاسکا تو اس تک مدد کرنے والوں‘ آگ بجھانے والوں‘ معالج یا ایمبولینس کا پہنچنا ممکن نہ ہوگا۔
بچوں کویہ بھی سمجھانا چاہیے کہ جلدازجلد کس بڑے کی مدد حاصل کرنی ضروری ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ پڑوسیوں سے بہتر کوئی دوست نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ ہم بھی ان سے اسی طرح کی دوستی اور خلوص برتیں۔ پھربچوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ ان حالات میں کسی چیز کو بچانے سے پہلے متاثرہ شخص کی مدد اور اپنی حفاظت کرنالازمی ہے۔ اشیاء اہم نہیں بلکہ خود ان کی اپنی جان کی حفاظت اور متاثرہ شخص کی زندگی کو بچانا اہم ہے۔ خود کو خطرے میں ڈال کر کسی ادنیٰ سی شے کو بچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر خدانخواستہ کسی کے گھرمیں آگ لگ جائے گھر کی اشیاء کی حفاظت کیلئے اس حد تک کوشش نہ کی جائے کہ خود افراد ہی خطرے میں گھر جائیں۔ یہ بات بچوں کو جو اپنی چیزوں اور کھلونوں سے بہت پیار کرتے ہیں ذہن نشین کرانا بہت ضروری ہے۔
اگر ہنگامی خطرناک حالات میں اپنی اور لوگوں کی حفاظت کی تربیت ہو تو سراسیمگی کے بجائے منظم عمل کیا جائے اور ہنگامی حالات جس میں مریض یا حادثے کے شکار کو چوکس رہتے ہوئے بچایا جاسکتا ہے المناک نتائج تک نہیں پہنچیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں